"احتساب" از "مریم شیخ"
اندھیری رات میں وہ تنہا بیٹھی چاند کو دیکھ رہی تھی ۔
کچھ دن پہلے ہی کی تو بات تھی وہ بھی ایسے ہی چاند کو تکتا تھا ۔پھر سپیکر سے اسکی آواز ابھرتی تھی کہ
"مجھے تو چاند میں ایسا کچھ خاص نہیں لگتا سوائے اس کے کہ وہ بھی تمہاری طرح مجھ سے بہت دور ہے ۔۔۔"
میں اسکی آواز میں چھپی بے بسی سن کر کھلکھلا کر ہنس دیتی ۔۔۔
"اتنی محبت کرتے ہو مجھ سے ۔۔؟"میں نا جانے کس خدشے کے تحت ہر بار یہی سوال دہراتی ۔۔۔
"تم مجھ سے زیادہ جانتی ہو ۔۔۔"اسکا بھی ایک ہی جواب ہوتا ۔
کیونکہ مجھے لگتا تھا کہ میں اسے اس سے زیادہ جانتی ہوں ۔
آج جب یونہی بیٹھے کہیں سے اچانک اسکی شادی کی خبر ملی تھی تو مجھے ہر طرف اکسیجن کم ہوتی محسوس ہوئی ۔مجھے لگا میں مر جاؤں گی ۔اور میں واقعی مر ہی تو گئی ۔
میری آنکھوں کے آگے اسکے ساتھ گزارے لمحے فلم کی طرح چلنے لگے ۔
پہلی بار جب میں نے اسے اپنی طرف تکتے دیکھا تو دل نے عجیب سا محسوس کیا ۔اسکی نظر روز مرہ اپنی طرح اٹھنے والے مردوں کی نظر سے علیحدہ تھی ۔
اسکی وہ کالی بھوری آنکھیں، مجھ سے نظریں ملنے پر نظر پھیر لینا ۔میری چھوٹی چھوٹی بات کی پروا کرنا ۔میری چھوٹی سی چوٹ پر بے چین ہو جانا ۔۔
مجھے سب محبت ہی تو لگتا تھا ۔۔
نہ اس نے کبھی اظہار کیا تھا نہ میں نے۔۔۔
مگر میرے نزدیک یہ سب اسکا اظہار ہی تو تھا ۔
میں بغیر کچھ کہے سنے خوابوں کے جزیرے تعمیر کرتی گئی ۔
آج جب میں نے اس سے اسکی شادی کے بابت پوچھا تو پہلی بار میری آنکھوں میں آنکھیں ملا کر اس نے جواب دیا ۔
اس کے اس طرح دیکھنے سے ہی تو مجھے جواب مل گیا ۔۔
میں خاموشی سے اپنی محبت کا ماتم کرتی گھر کو چل دی۔۔۔
سوچتی ہوں تو غلطی میری ہی تھی اس نے کب کہا تھا کہ مجھ سے محبت کرتا ہے، اس نے تو ہمیشہ تم زیادہ جانتی ہو کہہ کر راستہ کھلا رکھا تھا ۔یہ میں ہی تھی جو محبت کی اندھی پٹی آنکھوں پر لگائے اسکی نظروں کو دوسرے مرد سے مختلف سمجھتی تھی ۔وہ مرد تھا آزاد پرندہ، جیسے ہی اسے مجھ سے اچھی ملی وہ خاموشی سے اسکی طرف چل دیا ۔
اور میں آج بھی ادھر ہی کھڑی ہوں، پہلے اسکی محبت کے حصار میں اور آج بھی نہ جانے اپنی غلطی پر، یا اس کے چھوڑ جانے پر ۔۔
اپنا میں جب بھی احتساب کرتی ہوں تو ہر طرف خسارہ ہی نکلتا ہے، آج ہر لڑکی میری طرح اس خسارے سے دوچار ہے ۔
عورت کو وہی مرد اچھا لگتا ہے جسے وہ خود چاہتی ہے ۔ورنہ اسکی طرف اٹھتی نظریں اور التفات ہر مرد کے ایک جیسے ہوتے ہیں ۔ یہ عورت ہے جو خود کو دھوکہ دے کر ساری عمر جوگ لے بیٹھتی ہے ۔
****************
از "مریم شیخ"
"مجھے تو چاند میں ایسا کچھ خاص نہیں لگتا سوائے اس کے کہ وہ بھی تمہاری طرح مجھ سے بہت دور ہے ۔۔۔"
میں اسکی آواز میں چھپی بے بسی سن کر کھلکھلا کر ہنس دیتی ۔۔۔
"اتنی محبت کرتے ہو مجھ سے ۔۔؟"میں نا جانے کس خدشے کے تحت ہر بار یہی سوال دہراتی ۔۔۔
"تم مجھ سے زیادہ جانتی ہو ۔۔۔"اسکا بھی ایک ہی جواب ہوتا ۔
کیونکہ مجھے لگتا تھا کہ میں اسے اس سے زیادہ جانتی ہوں ۔
آج جب یونہی بیٹھے کہیں سے اچانک اسکی شادی کی خبر ملی تھی تو مجھے ہر طرف اکسیجن کم ہوتی محسوس ہوئی ۔مجھے لگا میں مر جاؤں گی ۔اور میں واقعی مر ہی تو گئی ۔
میری آنکھوں کے آگے اسکے ساتھ گزارے لمحے فلم کی طرح چلنے لگے ۔
پہلی بار جب میں نے اسے اپنی طرف تکتے دیکھا تو دل نے عجیب سا محسوس کیا ۔اسکی نظر روز مرہ اپنی طرح اٹھنے والے مردوں کی نظر سے علیحدہ تھی ۔
اسکی وہ کالی بھوری آنکھیں، مجھ سے نظریں ملنے پر نظر پھیر لینا ۔میری چھوٹی چھوٹی بات کی پروا کرنا ۔میری چھوٹی سی چوٹ پر بے چین ہو جانا ۔۔
مجھے سب محبت ہی تو لگتا تھا ۔۔
نہ اس نے کبھی اظہار کیا تھا نہ میں نے۔۔۔
مگر میرے نزدیک یہ سب اسکا اظہار ہی تو تھا ۔
میں بغیر کچھ کہے سنے خوابوں کے جزیرے تعمیر کرتی گئی ۔
آج جب میں نے اس سے اسکی شادی کے بابت پوچھا تو پہلی بار میری آنکھوں میں آنکھیں ملا کر اس نے جواب دیا ۔
اس کے اس طرح دیکھنے سے ہی تو مجھے جواب مل گیا ۔۔
میں خاموشی سے اپنی محبت کا ماتم کرتی گھر کو چل دی۔۔۔
سوچتی ہوں تو غلطی میری ہی تھی اس نے کب کہا تھا کہ مجھ سے محبت کرتا ہے، اس نے تو ہمیشہ تم زیادہ جانتی ہو کہہ کر راستہ کھلا رکھا تھا ۔یہ میں ہی تھی جو محبت کی اندھی پٹی آنکھوں پر لگائے اسکی نظروں کو دوسرے مرد سے مختلف سمجھتی تھی ۔وہ مرد تھا آزاد پرندہ، جیسے ہی اسے مجھ سے اچھی ملی وہ خاموشی سے اسکی طرف چل دیا ۔
اور میں آج بھی ادھر ہی کھڑی ہوں، پہلے اسکی محبت کے حصار میں اور آج بھی نہ جانے اپنی غلطی پر، یا اس کے چھوڑ جانے پر ۔۔
اپنا میں جب بھی احتساب کرتی ہوں تو ہر طرف خسارہ ہی نکلتا ہے، آج ہر لڑکی میری طرح اس خسارے سے دوچار ہے ۔
No comments:
Post a Comment