Merey dard ki dawa koi kion kar karey by Umm E Hureyrah
آج جب پہلی بار کچھ لکھنے کی جرأت کر کے قلم اٹھایا تو شدت سے یہ احساس پیدا ہوا کہ مجھ سے بہت اچھا اور بہتر لکھنے والے موجود ہیں۔ نئے لکھاریوں کی اتنی مجال کہاں کہ ان کے مقابل آ سکیں۔ لیکن پھر بھی یہ امید ہے کہ میری یہ خفیف سی کاوش شائد قارئین کو غور و فکر کی دعوت دے سکے۔ میرے بہت سے محترم اور عزیز لکھنے والوں نے مختلف پہلوؤں پر بہت عمدہ لکھا۔ کسی نے کرپشن سے پردہ اٹھایا ، کسی نے معاشرتی مسائل سکا احاطہ کیا۔کسی نے معاشی پہلو کو اجاگر کیا ، کسی نے سیاستدانوں کو آئینہ دکھایا تو کسی نے جرائم اور دہشت کردی کو موضوع گفتگو بنایا۔ حتیٰ کہ ہر ایک نے حق جوئی کی خاطر ابلاغی جہاد کیا۔ لیکن شائد اب تک بدقسمتی سے کسی مسلے کا سد ِّباب ممکن نہ ہو سکا ۔ آخر کیوں ؟ اس کیوں کا جواب کوئی دوسرا تسلی بخش دے ہی نہیں سکتا۔
اگر ہم خود سے پوچھیں تو اکثر ہم اپنی آنکھیں بند کر لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ سوچ کر کہ ایک اکیلے شخص کے بدل جانے سے کیا ہو گا۔ دوسروں کی ظاہری برائیاں ہمیں نظر آ جاتی ہیں۔ اسے کیا پہننا چاہیےتھا، کیا کھانا چاہیے ، کیسے چلنا چاہیے ، کیسے بولنا چاہیے، کیسے رہنا چاہیے۔یہاں تک کہ ہمیں اس کی غریبی پر افسوس اور امیری پر جلن ہونے لگتی ہے۔ ہم دوسرے کی ذات میں موجود خامیاں تو فوراً بھانپ لیتے ہیں۔ اسے یہ نہیں کرنا چاہیےتھا تو اسے وہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ کیا یہ سب کچھ کرنے کا سرٹیفیکیٹ ہم نے لے رکھا ہے؟ نہ تو اسلام ہمیں یہ درس دیتا ہے اور نہ ہی ہمارے نبی کریم ﷺ نے ہمیں یہ سکھایا۔ نہ ہمارے قائد نے ایسا کوئی خظاب کیا اور نہ ہی اقبال نے اپنی کسی شاعری میں یہ بیان کیا۔تو پھر کیوں ہم غلط راہ پر گامزن ہیں ؟ عام عوام تو ایک طرف سہی، ہمارے رول ماڈل ، ہمارے سیاستدان آئے روز ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے ہوئے ، ایک دوسرے پر لعن طعن کرتے ہوئے اور ایک دوسرے کی ذات پر کیچڑ اچھالتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
اسلامی دور حکومت پر نگاہ ڈالی جائے تو وہاں یہ جبر و تشدد، ظلم و زیادتی، قتل و غارت ، بے راہ روی، رشوت خوری، چوری، ڈکیتی، ذخیرہ اندوزی، جوا، فحاشی اور بدکاری جیسے عوامل کیوں کارفرما نہیں تھے۔ جو اب ہمارے دور حکومت میں موجود ہیں۔ ہم اپنے اسلامی اقدار، روایات اور تعلیمات کو بالائے طاق رکھ کر اپنی ہی دھن میں مگن ہیں۔ اگر ہم ایسا نہ کریں تو کوئی بھی سردی کی ٹھٹھرتی راتوں میں ٹھنڈے فرش پر بیڈ نہ ملنے کی صورت میں دم نہ توڑے۔ کوئی بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود تلاش روزگار کے لئے در بدر کی ٹھوکریں نہ کھاتا پھرے۔ ہمارے بچے کم عمری میں مزدوری کرتے نہ دکھائی دیں۔ ہوس کے پجاری درندہ صفت آدمی یوں نہ دندناتے پھریں اور نہ ہی اسلام کے نام پر بدعات جنم لیں۔ موجودہ دور میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی خواہش مضبوطی سے ہمارے اندر پنجے گاڑے ہوئے ہے۔ اسی لئے تو جائز و ناجائز کچھ نہیں دیکھا جاتا۔
ہمیں گلے اور شکوے تو بہت ہوتے ہیں۔ اصل مدعا تو یہ ہے کہ ہماری شکایات کا ازالہ کون کرے گا؟ کب تک ہم کسی مسیحا کی تلاش میں بے یار و مددگار بیٹھے رہیں گے۔ تنقید برائے تنقید کو ہم نے شیوہ بنا رکھا ہے۔ہم با آسانی سب کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیتے ہیں کیونکہ اپنے کردار کی عکاسی کرنا ہمارے لئے مشکل ہوتا ہے۔ ہمارے لیڈر تو اپنے ہزار دعووں کے باوجود کوئی غیر معمولی کارکردگی دکھانے سے قاصر ہیں تو ایسے میں ہمیں خود ہی خود کو سہارا دینا ہو گا۔ ہر کوئی اپنے اعمال کا جوابدہ ہے تو کیوں نہ ہم پہلے اپنی اصلاح کا بندوبست کریں۔ اگر ہم آج اور ابھی سے اپنے احتساب کا آغاز کر کے صدقِ نیت اور صدقِ دل سے اپنی تمام ظاہری اور پوشیدہ برائیاں اتار پھینکنے کی ٹھان لیں تو یقیناً ہمیں دوسروں کی شکایات میں کمی واقع نظر آئے گی۔
تحریر امِ ہریرہ
No comments:
Post a Comment