سوچ کی تبدیلی
تحریر: صبغہ احمد
جی تو بات ہو رہی ہے تبدیلی کی جو جلد یا بدیر لیکن بلاشبہ ہمارے پیارے وطن میں آنے ہی والی ہے جس سے حال ہی میں بہت سے لوگ سیاسی و قانونی اور ظاہری طور پر محبت و عقیدت کے قصیدے پڑھنے لگے ہیں، شاید اتنی ہی محبت جو بوقتِ ضرورت ان کام آ سکے۔ غیر یقینی طور پر یہ آرٹیکل سب کو منفی خیالات کا اثر بھی لگ سکتا ہے تاہم اسے لکھنے میں مجھے کوئی تامل نہیں۔ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ میری ایک ناقص رائے بھی ہو سکتی ہے۔ بہرحال ہماری عوام کے پچاس فیصد سے زائد لوگ جو کہ تبدیلی کے خواہاں ہیں موجودہ صورتِ حال سے انتہائی مسرور اور خوش آئند نظر آتے ہیں۔ ان میں زیادہ تعداد اس ملک کی نوجوان نسل کی ہے جنہیں ہم اس ملک کا سرمایہ گردانتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ نو وارد لیڈروں کو ووٹ دے کر وہ ملک کی سیاسی، معاشی و معاشرتی اور شاید قانونی حالت میں تبدیلی لا سکتے ہیں، بہت حد تک ممکن ہے کہ ان کا خیال آنے والے وقتوں میں ان کے صحیح فیصلے کی تصدیق بھی کرے۔ لیکن اختلاف یہاں اس بات سے نہیں کہ وہ کس سیاسی لیڈر کو بادشاہ کی مسند پر بٹھاتے ہیں بلکہ اختلاف یہاں ان کی سرگرمیوں سے ہے۔ زیرِغور بات یہ ہے کہ آدھے سے زیادہ ینگزٹرز جو مختلف یونیورسٹیوں اور کالجوں میں زیرِتعلیم ہیں،ان میں منعقد ہونے والے کانسرٹس کا حصہ بنتے ہیں بلکہ اس کمپین کے اہم رکن کا کردار بھی ادا کرتے ہیں۔ یہی نہیں اس کے علاوہ پیسے اور اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے سفارشات کروانا، زائد نمبر لگوانا وغیرہ بھی ان کے کھاتے میں شامل ہے اور یہ ہیں وہ نوجوان جو تبدیلی چاہتے ہیں۔ ایسا ملک جہاں لطف و سرور کی محفل پر دس بارہ لاکھ روپے باآسانی خرچ کیے جائیں جو کہ عام طور پر نعت و میلاد کی محفل پر بے دریغ خرچ نہیں کیے جاتے اور ایسا ملک جس کی بنیاد ہی اسلام کے اصولوں پر رکھی گئی ہے اور اس ملک میں ایک گانا بجانے والے کو مسجد کے امام اور سکول کے اساتذہ سے زیادہ آمدن، زیادہ مراعات اور زیادہ اہمیت حاصل ہو وہاں تبدیلی لانا کسی کرامت سے کم نہیں۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے لیکن اسی ملک میں پل بڑھ کر اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے والے جوان جو کسی بنک میں منیجر، کسی کورٹ میں جج و وکیل یا کسی انڈسٹری کے سپروائزر ہیں اور انہیں کی طرح بہت سے دوسرے اعلیٰ اداروں میں کام کرنے والے جن کو محض تبدیلی سے سروکار ہے جو کہ ان کے خیال میں ان کے کرپٹ دھندوں کو روکنے اور حلال و حرام کی تمیز کرنے سے نہیں بلکہ لیڈر کے تبدیل کرنے سے آئے گی۔ باقی ماندہ جوان و نوجوان جو کہ نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اپنے تئیں ملک میں گندگی کا ڈھیر اکٹھا کرنے، ناپ تول میں کمی، دودھ میں ملاوٹ جیسی دیگر بہت سی بیماریوں میں مبتلا ہیں اور اس سب کے ساتھ ساتھ ان کا اہم اور پلس پوائنٹ یہ ہے کہ وہ بھی تبدیلی کے منتظر ہیں۔ غرض یہ کہ جس کا جتنا ہاتھ پڑتا ہے وہ اپنی ہمتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے مال اور کھال کھینچنےمیں مصروف ہے۔ تبدیلی محض ایک لفظ ہی نہیں یہ زمانے کا وہ پراسس ہے جو صدیوں پر محیط ہے جو کہ مثبت اور منفی دونوں صورتوں میں آہستہ آہستہ ہم عوام کی سوچ، لگن اورملک کے سربراہان کی محنت سے ہی وقوع پذیر ہوسکتا ہے۔ تو کیا سوچ کی تبدیلی کے بغیر صرف ایک سیاسی لیڈر کی تبدیلی اس ملک کے حالات بدل سکتی ہے۔ سوچئے گا ضرور!
*****************
No comments:
Post a Comment