"قاتل"از "مریم شیخ"
سارا کمرہ گھپ اندھیرے میں ڈوبا تھا ۔۔۔
کھڑی سے آنے والی باریک سی روشنی کی لہر کمرے میں موجود شخص کا ہیولاواضح کرنے کے لیے نا مکمل تھی ۔۔۔
روشنی نے زور لگا کر اس ہیولے تک پہنچنے کی کوشش کی ۔۔
جیسے ہی روشنی کی آنکھیں اس وجود کو دیکھنے کے قابل ہوئیں اس کے قدم ادھر ہی جم گئے ۔۔
روشنی نے دو بار سہ بار آنکھیں جھپک کر اس وجود کی طرف دیکھا ۔۔
مگر اس وجود کی آنکھوں میں اسے کوئی روشنی دکھائی نہ دی ۔۔
گھپ اندھیرا بالکل ویسے ہی جیسے کچھ دیر پہلے اس کے لیے تھا ۔۔
وہ وجود روشنی کو اچانک اپنے پاس دیکھ کر کانپ گیا ۔۔
روشنی نے ہاتھ بڑھا کر اسے چھونا چاہا مگر اس نے بے دردی سے اسے پیچھے کر کے پھر سے آنکھیں موند لیں ۔۔۔
اب ہر طرف پھر سے وہی آوازوں کا تماشہ شروع ہو چکا تھا ۔۔
خون میں لپٹے ہاتھ وہ بین آہ وزاری پھر سے شروع ہو چکی تھی ۔۔
اپنی طرف بڑھتے بونوں کو دیکھ کر وہ چیخی اس نے ادھر سے بھاگنا چاہا ۔۔مگر روشنی واپس جا چکی تھی ۔۔
اس نے روشنی کو زور لگا کر پکارا مگر شاید وہ روٹھ گئی تھی ۔۔۔
وہ بونے اس کی طرف ہتھیار لیے بڑھ رہے تھے ۔۔
روشنی کو پکارتے پکارتے اس کی آواز رندھ گئی ۔۔
وہ بھاگتے ہوئے کمرے کے وسط تک پہنچ گئی۔۔۔
وہ سب اس کے قریب آتے جا رہے تھے وہ آوازیں کانوں کا پردہ پھاڑ رہی تھیں ۔۔
اس نے اپنی جانب سب کو آتے دیکھ کر بھاگنا چاہا ۔۔
مگر بھاگنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دیا، ہر طرف وہی بونے کھڑے تھے جن کے قد بڑھتے چلے جا رہے تھے ۔۔
سب کے ہاتھوں میں ہتھیار دیکھ کر اس کا دل کانپا ۔۔
اتنی بے درد موت تو اس نے کبھی مرنا نہیں چاہا تھا۔۔
اس نے آنکھیں کسی امید کے تحت بند کیں ۔۔۔
"تم کسی قابل نہیں ہو۔ "
"You are a looser "
"تم نے میری برسوں بنائی کمائی منٹوں میں اجاڑ دی۔ "..
"ساڈھی دھی تے اک معمولی جئی ڈاکڑ وی نہ بن سکی ،لوکاں دے نیانے ہورے کی کوج کر لیندے نے۔ "
"آپ جیسی نالائق سٹوڈنٹ کو کوئی حق نہیں ہے میڈیکل میں آنے کا" ۔۔۔
"جگہ جگہ ڈاکٹر رل رہے ہیں اور یہ پہلے سال میں ہی کامیاب نہیں ہو سکی ۔۔"
ماں باپ کا پیسہ میڈیکل کے نام پر اجاڑ کے آوارہ گردیاں ہوتی ہیں "۔
چھی چھی اتنی کم ظرف اور نالائق اولاد اللہ کسی کو نہ دے۔"
وہ بونے اس پر وار کرنا شروع کر چکے تھے ۔۔۔
اس نے تکلیف سے آنکھیں کھولیں ۔۔۔
جسم سے جگہ جگہ خون بہہ رہا تھا ۔۔۔
ایسا ہی کچھ خون اسکی آنکھوں سے بہا ۔۔۔۔
اس نے تڑپتے ہوئے لوگوں کی زبان سے نکلتے الفاظ سے خود کو بچانا چاہا ۔۔۔
مگر درد تھا کہ بڑھتا جا رہا تھا ۔۔۔
کسی کو اس کی آنکھوں کی بجھتی قندیلیں نظر نہیں آئیں ۔۔
آوازوں کا شور سن کر اردگرد تماشائی اکٹھے ہونا شروع ہوئے ۔۔
سب کو دیکھتے انہوں نے بھی اپنے جنجر نکال کر ایسے نالائق انسان کا وجود زمین سے ختم کرنا چاہا ۔۔جو ان کے ملک اور ڈاکٹری کے نام پر دھبہ تھا ۔۔
زمیں پر گری وہ وار سہتے سہتے نڈھال ہو چکی تھی ۔۔۔
اس نے مزاحمت ترک کر دی تھی ۔۔۔
اس کی آنکھوں کے سامنے حسین لمحوں کی تصویریں آنے لگیں ۔۔
جب گڑیا کو انجکشن لگاتے دیکھ کر اسکی اماں نے کہا تھا ہماری نرگس تو ڈاکٹربنے گی ۔۔
گڑیا سے کھیلتی نرگس نے ماں کی آنکھوں میں چمکتی الوہی چمک کو اپنی آنکھوں میں اتارا تھا ۔۔
ماں کے الفاظ اس کے دل میں کہیں کھب سے گئے تھے ۔۔۔
جیسے جیسے وہ بڑی ہوتی گئی گڑیا کھلونے تو دور کی بات اس نے اپنی ہم عمر سکھیوں میں بیٹھنا بھی چھوڑ دیا ۔۔۔چونکہ اس کے پاس اس سب کے لیے وقت نہیں تھا ۔۔
جب کبھی خاندان میں رونق میلہ لگا ہوتا ۔۔تو وہ سب سے الگ کمرے میں بیٹھی کتابوں کے ڈھیر میں خود کو گم کر لیتی ۔۔۔
اگر کہیں اس کا دل مچلنے لگتا تو بابا کے الفاظ ادھر ہی قدم روک دیتے ۔۔۔
"میری نرگس ڈاکڑ بن کے اپنے بابا حیات کا نام انکی حیات میں روشن کرے گی ۔"
ماں بابا کے الفاظ اسکی کل حیات تھے ۔۔۔
اس نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ اسکی کیا خواہش تھی وہ کیا چاہتی تھی ۔۔۔
اس کے لیے ان کا کہا سب کچھ تھا ۔۔۔
نڈھال وجود کے ساتھ اس نے ان بونوں کو دیکھا ۔
اس میں ابا اور اماں بھی تھے ۔۔
جھکی آنکھوں کے ساتھ لوگوں کے سوالوں کے جواب دیتے ۔۔
اماں کی آنکھوں میں اس چمک کی بجائے آج آنسو تھے ۔۔جو وہ سب سے چھپانے کی کوشش کر رہی تھیں ۔۔۔
مگر اپنے پھول سے نہ چھپا پائیں ۔۔۔
وہ ساری ہمت اکھٹی کرتے کسی فیصلے کے تحت کھڑی ہوئی ۔۔۔
نہیں وہ اپنے ماں باپ کا جھکا سر نہیں دیکھ سکتی تھی ۔۔۔
وہ انہیں ان خنجروں سے بچانا چاہتی تھی ۔۔۔
وہ بیٹی تھی ازل سے قربانی دینے والی ۔۔۔
اس کے نزدیک یہ اہم نہیں تھا کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ۔۔۔
وہ بس بچانا چاہتی تھی انہیں۔۔۔۔
پھندہ بناتے اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے ۔۔۔
زندگی اسے اپنی طرف بلا رہی تھی ۔۔۔
ماں بابا کے ہمت بھرے الفاظ اسے روک رہے تھے ۔۔
مگر وہ کمزور تھی کہاں قتل ہوتا دیکھ سکتی تھی روز بروز انکا ۔۔۔
کرسی ایک سائیڈ پر گری ۔۔۔
واٹس ایپ کی بیپ سے برآمد ہونے والی روشنی دیر کر چکی تھی ۔۔۔
اسکی آنکھوں سے روشنی رخصت ہو چکی تھی ۔۔۔
قاتل جیت گئے تھے ۔۔۔
ایک پھول اپنے بابا حیات کی حیات بچا چکا تھا مگر اپنی حیات دے کر ۔۔۔
تماشائی خنجر پھینک کر غم کا اظہار کر رہے تھے ۔۔۔
جنکے نزدیک کل تک وہ نالائق تھی آج وہی مطلبی اور کم ظرف تھی ۔۔۔
جو ماں باپ کے بڑھاپے پر سوال اٹھا گئی تھی ۔۔۔
ہر طرف ایک کہرام مچ چکا تھا ۔۔۔
مگر نرگس حیات کی حیات کا گل ہوتا چراغ لاکھوں سوال چھوڑ گیا تھا ۔۔۔
قاتل کون تھا؟
وہ جس نے ماں باپ کے خواب پورے کرنے کی حد تک کوشش کی ؟
ہمارا معاشرہ ؟
ہمارا تعلیمی نظام؟
یا پھر ہمارے اپنے؟
کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ قتل تھا ۔۔۔
کوئی مجھے بتائے کہ اگر یہ قتل بھی ہوتا تو ان کو کس نے حق دیا ہے کسی کے ارمانوں، خوابوں اور خوشیوں کے قتل کا ۔۔
پھول پتی پتی کر کے توڑنا چاہو تو بلاآخر مرجھا کر خودہی ختم ہو جاتا ہے ۔۔۔
وہ بھی ایسا ہی ایک پھول تھا ،اس جیسے نجانے کتنے پھول گزر گئے اور نجانے کتنے ہیں جو پتی پتی ٹوٹ رہے ہیں ۔۔۔
خدارا خود کو قاتل بنانے سے روکیں ۔۔۔
اپنے خنجروں کو پھینک کر مرہم خریدیں ۔۔۔
روشنیوں کو گم ہونے سے بچائیں ۔۔۔
اپنوں کی زندگیوں میں قاتل یا قتل جیسے سوالیہ نشان نہ چھوڑیں ۔۔۔۔
اب ان کو ہے بخشش کی ہے تمنا جنہوں نے کبھی
چوک میں لا کر صلیبوں سے پیغمبر باندھے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"مریم شیخ"
No comments:
Post a Comment