ہم سب کا اردو ادب سے ادب
تحریر بنت میر
عام طور پر دیکھا گیا ہے کے لوگ کامن لفظوں کا استعمال زیادہ کرتے ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کے اردو جو "لشکری"زبان کا لفظ ہے یعنی ساری زبانوں کا حاصل اور ہم اسی کے استعمال سے گریز کرتے ہیں اس پر انگلش کو فوقیت دیتے ہیں اگر کوئی آپ سے اپنی قومی ادبی زبان سے بات کرے تو آپ کو وہ ان پڑھ لگتا ہے جب تک وہ انگلش کا کوئی لفظ استعمال نہ کرے
ہم وہ لوگ ہیں جو اردو آداب سے تو کیا اردو لکھنے والوں اور اس کی ترویج دینے والوں سے بھی ناواقف ہیں
ہم میں کتنے ہیں جو عبدلحلیم شرر کے لکھنوءی ادب سے واقف ہیں
ہم میں سے کتنے پریم چند کے افسانوں سے واقف ہیں
ہم میں سے کتنے جو اشفاق احمد اور بانو قدسی (qudsiya )کی تحریروں سے گزرے
ہم میں سے کتنے جو ممتاز مفتی اور مستنسر حسین تارڈ کے سفر ناموں سے دنیا کو دیکھا
اور اگر بات شاعری کی ہو تو نام تک سے واقف تو ہوں گے مگر آسان الفاظ کی شاعری پر جو غالب اور فیض نے کبھی آج جیسے لوگوں کی آسانی کے لئے لکھ رکھی ہو گی اور اگر بات ساگر ؛؛ساحر ؛؛داغ ُُمیر تقی یا میر درد و آتش کی ہو تو ہم بلکل نابلد ہیں اور اگر بات گرامر کی کیجیے تو ہم واحد کو جمع اور معروف کو مجہول بنا دیتے ہیں گو اب بات سے بات نکلی ہے تو ہم اس کا ساتھ دینے والوں کا بھی ذکر کرتے ہیں جو بچارے کبھی اردو کے شوق میں آ کر اردو تو سیکھ لیتے ہیں مگر اس کی ادائیگی پر قادر نہیں ہوتے یعنی ہوتا کچھ یوں کے ؛" لفظ تو ہوتے ہیں تلفظ نہیں ہوتا "اور ان کا شوق آپ اپنی موت مر جاتا ہے غرض یہ کے اردو ادب کے ادب سے ہماری شناسائی افسوس کے ساتھ کچھ بھی نہیں.
********************
بنت میر
No comments:
Post a Comment