""محبت امر ہوتی ھے""
اُسکی آنکھوں میں کسی اور کی محبت کی روشنی پھوٹتی دیکھی تو میں نے اپنی سسکتی بلکتی محبت کو ختم کرنے کا تہیہ کیا۔۔۔
مگر محبت اور دل کی دھڑکن کا سنگھم ایسا تھا کہ میں کوشش کے باوجود وہ ختم نہ کر پائی۔۔۔۔ میں نے اپنی تڑپتی ھوئی محبت کی کسی آہ پر دھیان نہ دیا اور اُسکے ہاتھ پاؤں باندھ کر اُسے دل کے تہہ خانے میں بند کر آئی ۔۔۔ اُسے اندھیروں کے حوالے کر کے خود کو تنہائیوں کے سُپرد کر دیا ۔۔۔۔
اُس کی چینخیں جب کبھی دل کے در و دیوار میں گونج کر کانوں کے پردوں سے ٹکراتی تھیں تو کئی آنسو خاموشی سے پلکوں کی باڑ توڑ کرگالوں پر بہہ نکلتے تھے ۔۔۔۔ پھر آہستہ آہستہ تھک ہار کر اُس نے صدائیں دینا چھوڑ دیا اور خاموش محبت کا لبادہ اوڑھ لیا ۔۔۔ کبھی کبھار دل کی دھرتی پر نمی محسوس ھوتی تو میں جان جاتی کے آج پھرمحبت کی آنکھ نم ہوئی ھے۔۔۔ میں نے خود کو زمانے کے سامنے تماشہ نہ بنانے کے لیے آنکھون کے آنسو کو گالوں کے بجاۓ دل پر گرانا شروع کر دیا ۔۔۔۔ یوں میرے آنسو اور محبت کے آنسو گڈمڈ ھو کر رہ جاتے اور میں ان دونو میں فرق نہ کر پاتی ۔۔۔۔ کئی برس گزر گۓ اس آنکھ مچولی میں ۔۔۔
کل جب میں نے اُس شخص کو مدت بعد دیکھا تو وہ آج بھی ویسا ھی تھا ۔۔۔ ہنستا ہنساتا ۔۔۔ اپنی دنیا میں مگن۔۔۔۔ میں چپکے سے رستہ بدل کر چل پڑی کہ کہیں دل کی زمین میرے آنسو قبول کرنے سے انکار نہ کر دے اور میرے یہ آنسو آنکھوں کے رستے بہہ کر میری ذات کا بھرم نہ توڑ دیں۔۔۔۔ مگر اُس شخص کی ایک جھلک سے دل میں ایک زبردست طُوفان برپا ہوا۔۔۔ طُوفان اتنا زور آور تھا کہ دل کے تہہ خانے کا دریچہ بھی اس طوفان کی زد میں آ کر کُھل گیا ۔۔۔ محبت پھر سے آزاد ھو گئی اور دل کی وادیوں میں بنجارن کی طرح دیوانگی میں رقص کرنے لگی۔۔۔۔ میں حیرت زدہ کھڑی دیکھتی ہی رہی۔۔۔ اور پھر اُس سے سوال کیا " کیا دس سال میں تمھاری شدت ، تمھاری طاقت میں کوئی کمی نہیں آئی۔۔؟ تُم ابھی تک زندہ کیسے ھو۔۔؟"
وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔۔ " ہاں میں زندہ ھوں۔۔ میری خوراک خود تم مجھے مہیا کرتی تھی۔۔۔ تمہارے دل میں بسی اُس شخص کی یادیں میری غذا بن کر مجھے توانائی بخشتی تھیں۔۔۔ دیکھو میں آج پہلے سے ذیادہ توانا ھوں۔۔۔ میں کبھی نہیں مر سکتی ۔۔ ۔۔۔ محبت کبھی نہیں مر سکتی۔۔۔ سنا تم نے۔۔۔ محبت امر ھوتی ھے۔۔ محبت امر ھوتی ھے۔۔" یہ کہ کر وہ پھر سے رقص میں مگن ھو گئی ۔۔۔ مگر اُسکا یہ رقص میرے دل کی دُنیا تہہ و بالا کر گیا۔۔۔۔
کل جب میں نے اُس شخص کو مدت بعد دیکھا تو وہ آج بھی ویسا ھی تھا ۔۔۔ ہنستا ہنساتا ۔۔۔ اپنی دنیا میں مگن۔۔۔۔ میں چپکے سے رستہ بدل کر چل پڑی کہ کہیں دل کی زمین میرے آنسو قبول کرنے سے انکار نہ کر دے اور میرے یہ آنسو آنکھوں کے رستے بہہ کر میری ذات کا بھرم نہ توڑ دیں۔۔۔۔ مگر اُس شخص کی ایک جھلک سے دل میں ایک زبردست طُوفان برپا ہوا۔۔۔ طُوفان اتنا زور آور تھا کہ دل کے تہہ خانے کا دریچہ بھی اس طوفان کی زد میں آ کر کُھل گیا ۔۔۔ محبت پھر سے آزاد ھو گئی اور دل کی وادیوں میں بنجارن کی طرح دیوانگی میں رقص کرنے لگی۔۔۔۔ میں حیرت زدہ کھڑی دیکھتی ہی رہی۔۔۔ اور پھر اُس سے سوال کیا " کیا دس سال میں تمھاری شدت ، تمھاری طاقت میں کوئی کمی نہیں آئی۔۔؟ تُم ابھی تک زندہ کیسے ھو۔۔؟"
وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔۔ " ہاں میں زندہ ھوں۔۔ میری خوراک خود تم مجھے مہیا کرتی تھی۔۔۔ تمہارے دل میں بسی اُس شخص کی یادیں میری غذا بن کر مجھے توانائی بخشتی تھیں۔۔۔ دیکھو میں آج پہلے سے ذیادہ توانا ھوں۔۔۔ میں کبھی نہیں مر سکتی ۔۔ ۔۔۔ محبت کبھی نہیں مر سکتی۔۔۔ سنا تم نے۔۔۔ محبت امر ھوتی ھے۔۔ محبت امر ھوتی ھے۔۔" یہ کہ کر وہ پھر سے رقص میں مگن ھو گئی ۔۔۔ مگر اُسکا یہ رقص میرے دل کی دُنیا تہہ و بالا کر گیا۔۔۔۔
تحریر: شمسہ اقبال
No comments:
Post a Comment