HERE YOU CAN SEARCH FOR THE NOVELS LINKS

google play

Get it on Google Play

Saturday, December 23, 2017

Allah umeed nahi yaqeen hai Article by Seher Sohail

Allah meed nahi yaqeen hai Article by Seher Sohail



کبھی کبھی صبر کرنا کتنا مشکل ہو جاتاہے نا؟ کسی ایسی چیز پر جو آپ ہمیشہ سے ہی اپنے لیے پسند کرتے آے ہیں - ایک ایسی چیز جسکو پانے کی آپ نے سالوں کوشش کی ہے- اس کے ہونے کے لیے دعا کی ہے- لیکن جب وہی چیز آپ کسی دوسرے کو بغیر کوشش کے حاصل کرتا دیکھتے ہیں تو آپ ناراض ہو جاتے ہیں -خود سے! اللہ تعالی سے! پوری دنیا سے-سوچتے ہیں کہ اگر وہ چیز ہماری نہ ہوئی تو کسی اور کی بھی کیوں ہو؟ انسان ایسا کیوں ہے؟ کہ اگر وہ خود اداس ہے تو چاہتا ہے کہ پوری دنیا ہی اداس ہو جاے- اگر وہ خود خوش نہیں ہے تو کوئی دوسرا بھی خوش نا ہو- لیکن وہ یہ یاد کیوں نہیں رکھتا کہ جو چیز اسکے لیے اہم ہے کسی دوسرے کے لیے اسکا ہونا یا نا ہونا برابر ہوگا- ایسے میں انسان کیا کرے؟  جب لگے کے ہر طرف اندھیرا پھیل رہا ہے اور یہ اندھیرا بڑھتے بڑھتے اسکے دل تک پہنچنے لگے-جو اسکے اندر کی روشنی کو آہستہ آہستہ نگلنے لگے- جو اسے سوچنے پر مجبور کرے کیا اللہ کو اسکا یہ انرھیرا نظر نہیں آرہا؟ جو زات اسکی شہ رگ سے بھی قریب ہے کیا وہ نہیں دیکھ رہی کہ اسکی برداشت اسکی آزمائشی کے آگے ہارنے لگی ہے؟ جیسے اسکے لیے ہر دروازہ ایک ایک کر کے بند کیا جا رہا ہے-ہر روشنی کو اسکے لے اندھیرے میں بدلا جا رہا ہے؟ اور وہ خود بس سب ہوتے دیکھ رہا ہے-خاموش اور بے بس ہو کر! ایسے میں انسان کیا کرے؟ وہ یہ کیوں بھول جاتا ہے کہ یہ دنیا تو ایک آزمائش ہے- اگر انسان جو چاہتا ہے سب ویسا ہی ہونے لگے تو اللہ کو کون یاد کریگا؟ کیونکہ انسان تو ایسا ہی ہے-نا شکرا! اسکی نظر ہمیشہ اسی چیز پر رہتی ہے جو اسکے پاس نہیں ہے- اس سے کیا ہوتا ہے؟ اللہ اسے ان ہی چیزوں میں الجھا دیتا ہے- اسے اپنے قریب کی نعمتیں نظر آنا بند ہو جاتی ہیں -اور پھر کیا ہوتا ہے؟ انسان اپنی پوری زندگی ان چیزوں کو پانے میں لگا دیتا ہے- لیکن ایک ایسا وقت بھی آتا ہے جب اسے احساس ہوتا ہےکہ اس نے اپنی پوری زندگی ان چیزوں کے پیچھے بھاگتے گزاردی جو اسکی قسمت میں لکھی ہی نا گئ تھیں- انسان ہمیشہ یہی سوچتا ہے کہ وہ جانتا ہے اسکے لیے اچھا کیا ہے اور برا کیا-کیا اسکے لیے بہتر ہے اور کیا نہیں -لیکن وہ یہ بھول جاتا ہے کہ ہر بات کا جاننے والا تو صرف اللہ ہے- اگر اسے اپنے لیے بہتر کا پتا ہے تو اللہ کو یقینا اسکے لیے بہترین کا معلوم ہے! اور جو رب ستر ماوں سے زیادہ پیار کرتا ہے وہ اپنے بندے کے لیے بہتر نہیں تو بہترین ہی لکھے گا- ہمیں ضرورت ہے تو صرف اللہ پر یقین کرنے کی- ہمیں خود کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ جو ہوگا اچھے کے لیے ہی ہوگا کیونکہ اللہ تعالی ہمارے ساتھ کچھ غلط کر ہی نہیں سکتا- اور اگر ہمیں کسی موڑ پر لگے کے ہمارے لیے سب دروازے بند کر دیے گے ہیں تو یقینا کوئ ایک دروازہ ایسا بھی ہوگا جو ہماری دستک کا منتظر ہوگا! اور انسان اپنے لیے اس دروازےکو کیسے کھلتا دیکھے؟میرےلیے تو اسکی چابی صرف دعا ہے! لیکن وہ دعا جس میں پورا یقین شامل ہو کہ ہمارے لیے یہ دروازہ اسی سے کھلے گا- وہ دعا جس میں اللہ سے پوچھا جاے کہ اسکا علاوہ کن ہے  جو یہ دروازہ اسکے لیےکھول سکے؟ کون ہے جو اسےان اندھیروں سے باہرنکال سکے؟ کوئ نہیں نا ؟ جب بغیر احسان جتاے اور شرمندگی کے تاثر کے کسی دینے والے کا ذکر آتا ہے تو سب سے پہلےذہن میں اللہ ہی کی زات آتی ہے- تو اسی سے مانگنا چاہئے- یہ یقین دلانا چاہئے کہ ہمارے لیے اس دروازےکا کھلنا کتنا اہم ہے- ہمارےیقین کے لیے اور ناامید ہونے سے بچنے کے لیے- جس کے اندر ہمارے لیے صرف روشنی ہی ہوگی جو ہماری زات کے ان تمام اندھیروں کو دور کر دیگی جو ہمیں ناامیدی اور مایوسی کی طرف لے جائیں - جب ہم یہ بات سمجھ لینگے تو خوش رہنا بھی سیکھ لینگے - جب ہمارا یقین کامل ہوگا کہ اللہ تعالی ہے جو ہمارے لیے ہم سے زیادہ جانتا ہے تو  خوش رہنے کے لیے ہمیں کسی وجہ کو نہیں ڈھونڈنا پڑیگا - کامل کیا ہوتا ہے؟ کچھ ایسا جو مکمل ہو جس میں شک کی گنجائش نا ہو اور اگر یقین ہو تو پورا ہی ہو! کیونکہ اللہ تعالی کی زات سے شک کو منسلک نہیں کیا جا سکتا- اور انسان کو اپنے لیے  یہ کامل یقین ہی ڈھونڈنے کی ضرورت ہے یہ سوچتے ہوے کہ شاید یہی وہ روشنی ہے جو اسکے لیے اندھیروں کو دور کر سکتی ہے - ضرورت ہے تو صرف خود کو باور کرانے کی کہ اللہ تعالی اسکے لیے بہتر نہیں تو بہترین ہی کرےگا-

No comments:

Post a Comment