Saturday, November 11, 2017

Mein apna maseeha khud hon Article by Seher Sohail

Mein apna maseeha khud hon Article by Seher Sohail



کہتے ہیں جو ہوتا ہے اچھے کے لیے ہی ہوتا ہے۔
 اگر ہوتے ہوتے اچانک کچھ نہ ہو سکے تو اسکا نہ ہی حق میں بہتر ہوتا ہے۔کسی دوسرے کے لیے شاید وہ کچھ نہ ہو لیکن کسی ایک کے لیے اس وقت اس کا پورا ہونا ہی سب سے اہم ہوتا ہے۔
 خواہش کبھی بھی چھوٹی یا بڑی نہیں ہوتی، ایک انسان کے لیے وہ صرف خواہش ہوتی ہے۔
میں کبھی بھی ایک بات نہیں سمجھ سکی کہ ایک چھوٹی سی خواہش کے پورے نہ ہونے میں کسی کے لیے کیا بھلائی ہو سکتی ہےآخر؟ االلہ توسب کر سکتا ہے تو پھر وہ اسکے لیے "کن"کیوں نہیں کہہ دیتا؟ کسی ایسی چیز کے نہ ہونے میں اسکے لیے کیا بھلائی ہوگی جس کے نہ ہونے سے اس پر اداسی طاری ہونے لگے۔ایسی اداسی جو اس کا دل ہر چیز سے اچاٹ کردے، کہ اسے لگنے لگے وہ جو بھی مانگے وہ قبولیت کی سند نہیں پا سکےگا اور باقی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کی طرح وہ بھی ویسا ہی ہو جائیگانا مکمل۔
 خواہش کو خواہش ہی رہنا چاہیے، اسے حسرت نہیں بننا چاہیے کیونکہ خواہش کے پورے ہونے کی امید تو ہوتی ہے لیکن حسرت انسان کو ناامید کر دیتی ہے اور ناامیدی وہ چیز ہے جو انسان کو مایوس کر دیتی ہے۔ہر چیز سے۔ یہ انسان کو ایسی کیفیت میں لے جاتی ہے کہ اس کا کسی بھی چیز میں دل نہیں لگتا- یہاں تک کہ وہ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ ا اللہ نے اسے دعا میں محنت کرنے کو کہا ہے (94؛ 7 )۔
انسان ہر وقت تو یہ نہیں سوچ سکتا کہ سب اچھا ہوگا ابھی نہیں تو کبھی سہی؟ اچھا وقت نہیں رہتا تو برا بھی نہیں رہےگا ۔ایسا سنا تو بہت ہے لیکن کچھ ایسے لوگ بھی تو ہونگے جو اس برے وقت کے گزرنے سے پہلے خود ہی گزر گئے۔
زندگی میں سب اچھا کیوں نہیں ہو سکتا؟ ہم ہمیشہ ان چیزوں پر ہی کیوں نظر رکھتے ہیں جو ہمیں نہ مل سکیں؟ ہم انکے بارے میں کیوں نہیں سوچتے جو ہمارے پاس ہیں؟ انسان اگر اداس ہو تو وہ کچھ وقت کے بعد ٹھیک ہو جاتا ہے لیکن اگر کسی کا دل ہی اداس ہو جائے تو وہ کیا کرے؟ انسان اداس ہمیشہ وقتی طور پر ہوتا ہے کسی وجہ سے، لیکن دل تب اداس ہوتا ہے جب انسان کے خواب یا تو ٹوٹ جاتے ہیں یا پھر انکے پورے ہونے کی امید ختم ہو جاتی ہے۔
 قرآن پاک میں ہے کہ" تمہارا رب تمہیں اتنا دیگا کہ تم راضی ہو جاؤگے۔ "(93:5)
تو جب دل اداس ہونے لگے تو اس آیت کو بار بار پڑھنا چاہیے کہ ا اللہ ہم سے کیا کہہ رہاہے۔وہ کیا چاہتاہے کہ ہم اس صورتحال میں کیا کریں؟ وہ ہمیں کیا امید دے رہا ہے؟ اور االلہ سے بہتر کون امید دلاسکتا ہے؟ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہر غلط چیز کے باوجود ایک ایسی ہستی ہے جو ہر وقت ہمارے ساتھ ہے۔ جس کے بس میں ہر غلط کو صحیح کر دینے کی طاقت ہے۔ ہمیں کرنا ہے تو صرف یہ کہ خود کو منفی باتیں سوچنے سے باز رکھیں - کیونکہ کوئی بھی ہمارے لیے یہ نہیں کر سکتا! ہمیں خود کو خود ہی ٹھیک کرنا ہے۔مرضی سے یا پھر زبردستی ہی۔یہ وہ عمل ہےجو اپنے لیے ہم خود ہی کر سکتے ہیں ۔کسی دوسرے کی بات ایک وقت تک ہم پر اثر کرےگی اس کے بعد پھر سے سب پہلے کی طرح ہی ہونے لگے گا۔ اگر کوئی انسان آپ کو اس کیفیت سے باہر نکال سکتا ہے تو وہ آپ خود ہیں کیونکہ آپ کا مسیحا صرف ایک شخص ہوتا ہے اور وہ شخص آپ خود ہوتے ہیں -(نمل)

No comments:

Post a Comment