لکھنے لکھا نے کا شو ق اسے ہمیشہ سے تھا۔کتا بو ں سے ا چھی تحر یر یں محفوظ کر لینا اس کا پسند یدہ مشغلہ تھا۔
پھر ایک دن آیا ،جب اس نے خو د تحر یر کرنا شروع کیا۔
مختلف تحر یر یں لکھنا اور ورق ورق سیاہی بھر نا۔
اکثر بہت کچھ ہوتا ہے۔جو آپ چاہ کر بھی کے کہہ نہیں پاتے۔اظہا ر کے لیے لفظ بھی ہو تے ہیں۔مگر سننے والا کو ئی نہیں ہوتا۔پھر انسان قلم قرطاس کا سہارالیتا ہے۔
اکثر بہت کچھ ہوتا ہے۔جو آپ چاہ کر بھی کے کہہ نہیں پاتے۔اظہا ر کے لیے لفظ بھی ہو تے ہیں۔مگر سننے والا کو ئی نہیں ہوتا۔پھر انسان قلم قرطاس کا سہارالیتا ہے۔
سکھ دکھ، خوشی غمی ہر احساس رنگن ورقوں پہ اْ تانے لگتا ہے۔ورقوں پہ اْ تر کے تحر یریں انسا ن کو جیسے ہلکا پھلکا کر دیتی ہیں۔ ایسا لگتاہے جیسے کند ھوں سے منوں بوجھ اْتر گیا ہو۔
وہ روز کیلنڈر دیکھتی ۔دن جیسے گن گن کے گزر رہے تھے۔دل آس اور اْمید کی ڈگر پہ سفر کرتا ر ہتا۔کبھی خوش فہم ہو جاتا اورکبھی ناکامی کا سوچ کے بجھ سا جاتا۔
وہ روز کیلنڈر دیکھتی ۔دن جیسے گن گن کے گزر رہے تھے۔دل آس اور اْمید کی ڈگر پہ سفر کرتا ر ہتا۔کبھی خوش فہم ہو جاتا اورکبھی ناکامی کا سوچ کے بجھ سا جاتا۔
کتنے احباب تھے ۔جن کو اْس کی طرح انتظار لگا تھا۔
پھر دن رات کا انتطار ختم ہوا۔
بازار سے خریدا ہوا رسالہ اْس کے ہاتھ میں تھا۔دل زور زور سے ڈھرک رہا تھا۔جیسے ابھی با ہر آ جائے گا۔
ڈر اور خوف کے ملے جلے جذبے کے ساتھ تقریبا سارے ہی رسالے کی ورق گردانی کر ڈالی۔پھروہ تحریر آ نکھو ں کے سامنے سے گزری۔
تحریر اْسکے سامنے تھی۔
وہ جسےتحریر کرتے اْس نے لفظوں میں اپنے احسا سوں کا رس گُھلا تھا۔
وہ اْس کی تحریر تھی،جس کا ہر لفظ اْسکا تھا۔
وہ پھٹی پھٹی نظروں سے ہر لفظ پڑھ رہی تھی۔
کہانی اْس کی تھی،لفظ بھی اْ س کے تھے۔کہانی کا نام بھی اْسی کا دیا ہوا تھا۔
مگر
مضنفہ کے نام کی جگہ کسی اور کا نام چمک رہا تھا۔
شدید غم ا ورغصے کی وجہ سے گرم پانی کا چشمہ اْس کی آنکھوں سے بہنے لگا۔
رسالہ اْس کے ہاتھوں سے چھوٹا اور زمین پر جا پڑا۔
اور گھٹنوں کے بل بیٹھی وہ پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی ۔
اور روتی ہی چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔
اور روتی ہی چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment